NAYAAB LARKI - نایاب لڑکی URDU AFSANA BY SAQIB NAEEM AWAN



نایاب لڑکی


اَرْشَد بہت خوش تھا کے آج کافی عرصے بَعْد ان کے گھر کوئی دور دراز کے رشتیدار مہمان بن کے آنے والے تھے . یونیورسٹی سے آتے ہی اسنے گھر میں اپنی تلاش نما نظریں ادھر اُدھر ڈوڑایں لیکن کوئی نظر نا آیا ، بیگ کو ایک کونے میں رکھتے ہوئے وہ اپنی والدہ ( بشرا ) کی جانب چل دیا ، اَرْشَد کی خوشی شاید اِس وجہ سے بھی اتنی شدت اختیار کر چکی تھی کے ایک عرصہ دراز سے ان کے گھر کوئی نا آیا تھا ، رشتیدار اِس لیے ان گھر آنا پسند نہیں کرتے تھے کے انکا آنا اسکی والدہ ، ( بشرا ) کو ناگوار گزرتا تھا ، کچن میں كھانا پکانے میں مصروف اپنی والدہ کو دیکھتے ہی اَرْشَد بڑی افسردگی کے ساتھ ان سے پوچھتا ہے

کیا آج مہمان نہیں آنے والے تھے ؟ ؟ ؟

بشرا ، جو کے ہانڈی میں چمچہ ہلانے میں مصروف تھی جھلملا کے پیچھے کو کھڑے اپنے بیٹے کو دیکھتی ہے


آگیا تو ؟ ؟ نا سلام نا دعا ! ! یہ کیا بات ہوئی بھلا ؟ ؟

اسلام وا علیکم ! ! ! اب تو بتائیے کیا وجہ ہوئی کے وہ لوگ نہیں آئے ؟ ؟

وا علیکم اسلام ! ! ارے بھائی اتنے اتاولے کیوں ہو رہے ہو آ رہے ہَیں وہ راستے میں ہَیں ، تم ذرا ان کے آنے سے پہلے چائے کے ساتھ کچھ کھانے کو لے آؤ بازار سے

اَرْشَد چرچرا سا منه بنا کے ، لائیے پیسے کیا منگوانا ہے ؟

پانچ سموسے کولڈ ڈرنک بسکٹ اور اپنی مرضی کا کچھ لے آنا . . . پیسے فریج کے اوپر کٹوری میں پڑے ہوں گے

اَرْشَد وہاں سے پیسے لیے بازار کی طرف روانہ ہوجاتا ہے اور پورے راستے اُسے ایک عجیب سی انجان مسرت محسوس ہوتی رہتی ہے کے ناجانے یہ نئے رشتیدار کس مزاج کے ہونگے ، ان کے ساتھ کون کون آئیگا ، کیا انکا کوئی اِس جیسا ہم عمر بیٹا ھوگا جس سے یہ دوستی کر سکے ، کیا کوئی بیٹی ہوگی . . . اور اِس قسم کے کئی سوال اسے ستائے جا رہے تھے . . . بازار سے بتایا گیا جب سارا سامان مکمل ہوا تو وہ گھر کی طرف واپس کو ہولیا
گھر پھنچتے ہی اسے تِین چار لوگوں کی باتوں اور قہقوں کی آوازیں اپنے کانوں میں سنائی دیتی ہیں جو ڈرائنگ روم سے آ رہی ہیں اِس کا تجسس مزید اضافہ اختیار کرتا ہے اور وہ کچن میں سامان چھوڑے سیدھا ڈرائنگ روم کی اور چل پڑتا ہے اندر جاتے ہی پاتا ہے کے ایک ادھیڑ عمر کے انکل اپنی بیوی کی ساتھ ایک طرف کو پڑے سوفے پہ بیٹھے ہیں اور دوسری طرف اسکی والدہ اور ایک نوجوان سڈول جسم کی خوبصورت لڑکی بیٹھی ہے . . اَرْشَد سب سے سلام کر کے ایک طرف کو بیٹھ جاتا ہے . . لڑکی کے والد اِس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھتے ہیں بیٹا کیا کرتے ہو تم ؟ ؟

!  انکل میں فیزکس میں ماسٹرز کر رہا ہوں

 !  یہ تو بہت اچھی بات ہے

لڑکی کی والدہ بشرا سے مخاطب ہوکر کہتی ہے بھائی جان کہاں ہیں ؟

وہ کام سے ذرا دیر سے آتے ہیں ! میں نے کہا تو تھا ان سے کے آج ذرا جلدی آجائییگا پر پتہ نہیں 
!!.....کیوں
!!... .. آپ بیٹھیۓ میں ابھی آتی ہوں

یہ کہہ کر بشرا کمرے سے باہر کو ہولیتی ہے اور کمرے میں ایک پل کے لیے خاموشی برپا ہوجاتی ہے پِھر کچھ دیر بَعْد لڑکی کے والد اور والدہ آپس میں کچھ بات چیت شروع کردیتے ہیں . . اَرْشَد کی نظر بار بار اپنے مخالف بیٹھی اس لڑکی پہ جاتی ہے جو بالکل خاموش بیٹھے کسی گہری سوچ میں غرق ہے ، اسکی آنکھیں نیلی رنگ کی ہیں اور چہرہ دودھ سے بھی زیادہ سفید ، بالوں کا رنگ سیاہ کالا جن میں سے ایک لٹ نکل کر اس کے چہرے پر جھوم رہی ہے
اَرْشَد اسکی خوبصورتی ، سادگی اور کم گوئ سے اِس قدر متاثر ہوتا ہے کے اس کے دل میں عجیب قسم کے جذبات اور احساسات جنم لیتے ہیں . . وہ انہیں جذبات اور احساسات کو ٹٹولنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کے اتنے میں اسکی والدہ چائے لیے کمرے میں داخل ہوجاتی ہے

ارے بھائی اتنا تکلف کیوں کیا بشرا ؟ ؟

کوئی بات نہیں آپ ہمارے مہمان ہیں اتنا تو
!! .....بنتا ہے

ساری چیزیں ٹیبل پر سجا کے بشرا اَرْشَد کی طرف جو کے اس لڑکی کے حُسْن اور اپنے اندر پیدا ہونے والے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے ، اپنی نگاہوں سے کچھ اشارہ کرتی ہے جسے اَرْشَد سمجھ جاتا ہے اور اپنی والدہ کے حکم کو بجا لاتا ہُوا ڈرائنگ روم سے باہر اپنے کمرے کی جانب ہو لیتا ہے . . . کمرے میں موجود ایک کرسی پہ بیٹھ کر وہ کافی دیر تک لڑکی کے خیال اور عجیب و غریب امنگوں کو اپنے ذہن سے نکال باہر پھینکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ خیال تو جیسے ایلفی کی مانند اِس کے ذہن پہ چپک گیا ہو . . . وہ کرسی سے اٹھ کرکمرے میں کچھ دیر ٹہلنے کے بَعْد اِس نتیجے پہ پھنچتا ہے کی یہ جذبات  اور احساسات اور کچھ نہیں بلکہ محبت کے ہیں جو ایک دو روز بَعْد خود با خود غائب جائنگے

ارشد کا یہ خیال کے ( یہ جذبات خود با خود غائب جائنگے ) منفی ثابت ہوتا ہے اور جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں یہ احساسات اور جذبات اسے اور بے چین کرتے جاتے ہیں..... ایک روز یونیورسٹی سے آتے ہوئے وہ ارادہ کر لیتا ہے کے اِس کے بارے میں جاتے ہی اپنی والدہ سے بات کرے گا . . گھر پھنچتے ہی وہ سیدھا اپنی والدہ کے کمرے میں جاتا ہے جو سوفے پہ بیٹھی کام میں مشغول ہے 

!!  امی ؟ اسلام وا علیکم

 !! وا علیکم سلام ! ! آگیا میرا بیٹا

 !! ..وہ امی مجھے کچھ بات کرنی تھی

ہاں بول نا ! کیا بات ہے ؟ ؟

 !!....امی وہ جو چند روز پہلے مہمان آئے تھے

نصیر انکل لوگ ؟ ؟ ؟

ہاں ! ! ! ان کے ساتھ جو لڑکی آئی تھی انکی

!!..... بیٹی

کون ؟ ؟ ادییما ؟ ؟

   اَرْشَد دل ہی دل میں اسکا نام سنتے ہی اسکی طرف اور مائل ہونے لگتا ہے . . . اور سوچتا ہے ادییما ( جسکا مطلب نایاب ہے ) نام کسی نے سوچ سمجھ کر رکھا ھوگا وہ لڑکی سچ میں بہت نایاب تھی 

جی جی وہی ! ! کیا کرتی ہے وہ ؟ ؟ ؟

بشرا ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوۓ…
 کرتی کیا ہوگی بیچاری گھر میں ہی ہوتی ہے دسویں تک پڑھی 
 ہے پھر گھر میں ہی…… اچھی لڑکی ہے بہت ! ! سارا کام کاج سنبھال لیتی ہے ! ! بڑوں کا ادب 
!!....کرتی ہے

اَرْشَد نے سوچا موقع اچھا ہے ابھی ہی اپنے دل
!!! .. کی بات اگل ڈالیگا

اچھا اسکی کم گوئی کی کیا وجہ ہے جب یہاں آئی تھی تب بھی اتنی چُپ چُپ سی بیٹھی 
!!!...تھی
بشرا کے چہرے پر عجیب قسم کی تبسم نمودار ہوتی ہے  جو طنز اور افسردگی دونوں کو یک مشت ظاہر کر رہی تھی
کیسے بولیگی ؟ ؟  کبھی گونگے بھی بولے ہیں بھلا ؟ ؟

اپنی والدہ کے منه سے یہ بات سنتے ہی اَرْشَد کو ایسا دھچکا لگتا ہے کے جو ایک پل میں اِس کے اندر موجود احساس اور جذبات کی جو مضبوط اور بلند عمارت تعمیر ہوچکی تھی ، ڈھڑام سے کر کے اسے ملبے میں تبدیل کر دیتا ہے



مصنف : ثاقب نعیم اعوان







Post a Comment

0 Comments